ہے شرک مگر شرک لیۓ شرک بیاں اور ہر صفت خدا ہی کی خدائی کاگمان اور مومن کا گمان اور ہے مشرک کاخدا اور حیدر کی شباہت میں خداہی ہے خدا اور ہر صفت خدا ہی کی خدائ کی ثناء اور ہے تیرا گماں اور ہے ہاں میرا یقیں اور گر ہاتھ یہ انداز یہ آنکھےہیں خدا اور ہے تیرا ولی اور ہے اور میرا علی اور (ڈاکٹر رضا )
بادشاہوں کی تکالیف عادات سے جڑی ہوا کرتی ہے ورنہ فطرتن شہنشاء اور پیادو میں فرق صرف مرتبوں کا ہوا کرتا ہے نہ تو شہنشاء کی ابتداء کوئی منفرد اندازوھوتا ہے نہ انتہاء کوئی عجوبہ سانحہ بس فقط فرق اٹھان اور پہچان کا ہوا کرتا ہے جو اگر سوار ہوتو کمان لیۓ اور پیادا ہوتو شان لیۓ چال میں روب ہو تہ طاقت دولت تربیت علم کا غالب ہونا عین مشاہدہ ہوتا ہے اور یہی چال جب مغلوب ہو تو کمزوری معذوری اور مجبوری کا اندیا ہوا کرتی ہے بس اب بادشاہ ٹاٹ پہنے تو اک انداز اور ریشم پہنے تو اس کا حق یہی ٹاٹ پیادا پہنے تو اس کی حیثیت اور ریشم پہنے تو اس کی اوقات (ڈاکٹر رضا )
مجبوری تو راستوں کی منجمد راہوں کی ہوا کرتی ہے منزل! سفر ،آغاز اور اختتام سے بےپرواہ ہوا کرتی ہے بلکل ایسے ہی مسافر قطعے نظر راستوں اور تکلیف کے، منزل پر ساکت ہوا کرتا ہے نہ جانے تقدیر کی ابتداءکہاں سے ہوا کرتی ہے ؟ میری نظر میں تقدیر کی ابتداء قدرت کا دخل ہے اور اور تدبیر فطرت کے عمل پر گویا تقدیر اپنی ابتدا ء فطرت کے بعد ہی انتہاں کی جانب مبزول کراتی ہے ایسا نہ ہو تو ہر عمل نیک اور بد تقدیر کا شاخسانہ ہو یوں جرم بھی قدرت کا خود ہے کروانا ہو گویا تقدیر کے احاطے میں فقط بےقصور مجرم کے کھاتے میں میری نظر میں تقدیر اک ایسے قانون کی مانند ہے جس کے ہر عمل میں اک اثر مخفی ہے جسے تقدیر کہا جاتا ہے اب گویا ایسا عنصر کے گویا پھل میں چھپا اس کابیج یعنی ایک مسلسل ویسے ہے وجود لیۓ عمل،کے بارہاں اور بار دیگر ایک ویسا ہی عمل مسلسل یوں گویا عمل اچھا تو تقدیر ایک مسلسل اچھا عمل جسکااختطام اک تقدیر لیے مسلسل منزل اور اگر عمل بدی لیۓ تو اس کا بیج ایک بدی کی مانند مسلسل ویسی تقدیر (ڈاکٹر رضا )
کسی شے کا ہونا اور اس شے سے جڑی خصوصیت و صفات سے خدا کی تشبیح کس بھی صورت حق تعالیٰ کی مخصوص خصوصیات کا تواذن و متوازن نہیں جہاں پیمائش کا پیمانہ نہ ہو وہاں حجم اور نصاب کا تعین ممکن نہیں یوں گمان فقط منزل ایمان اور یقین فقط گمان کی مانند کے جسے نہ دیکھا نہ جانا اور نہ کوئی پیمانہ فقط تخلیقی شاخسانہ گویا ایمان لانے والا ایسا دیوانہ جو اندیکھے کو خدا سمجھ بیٹھے یوں جو سمجھے وہ سوچ کا قیدی کے گویا ایسا دیکھا جو حصار میں اور ایسا جانا جو گویااختیار میں (ڈاکٹر رضا )
Well to me ,it is all your past that works as a guardian to hold your future. To me its the subconscious that becomes your conscious holding your minute move Actually its the moment that you live in and that moment actually behaves differently as the present, past and future.(Dr Raza)
بلاشبہ نور و تجللی خلقتِ پروردگار ہے اور خلقت سے خالق کا حصار نہیں دیا جاسکتا وہ جو خود تخلیق ہو وہ ابتدا سے ناواقف اور انتہاءسے نا بلد ہوا کرتی ہے (ڈاکٹر رضا )
بہرحال ابتدا ء کا تعلق ظہور سے ہے اور وہ جس کا آغاذ ہو اس کی ابتداء ہے یوں جس کی ابتداء ہے وہ انتہا سے جڑا ہے ہر آغاز تخلیق ہے اور تخلیق اجزاۓ خالق پر تو ہو سکتی ہے مگر خالق نہیں عبد تو ہوسکتی ہے معبود نہیں وہ جو ظاہر ہو وہ وجود ہے جو غیب رہا وہ فقط موجود بس یہ اذن ہی تو ہے جو مخلوق کو خالق کی صفات پر لا کھڑا کرتا ہے یوں عیسٰی بھی بےازن اللٰہ مخلوق میی خالق کی صفات پر معبود دکھا کرتا ہے (ڈاکٹر رضا)
اور ضرورت تو اکثر کسی کا ساتھ ہوتا ہے اور پھر کسی کا ساتھ اکثر ضرورت ہوا کرتا ہے
ہم عادی ہوجایا کرتے ہیں کیوں کے ہماری عادت ہوا کرتی ہے
کوئ زندگی میں آجاتا ہے کیوں کے وہ زندگی ہوا کرتا ہے
بس اب اظہار کر دو تو اقرار ہوگا اور اقرار کردوں تو بیزار ہوگا پھر قریب آنا دشوار ہوگا اور دور رہنا بیقرار ہوگا بس اب اگر ہر وقت اظہار ہو گا بات واضح ہے اسے پیار ہوگا (ڈاکٹر رضا )
ہے محبّت کے تقاضے جو یہ رسوائی ہے میری حالت کی ذمہ دار ہی رعنائی ہے کس کو الزام میں دوں تو ہی تو ہرجای ہے اب تیرا نام میرے قلم کی سیاحی ہے (ڈاکٹر رضا )
بس ہماری عزت اور ذلّت کے مقام مختلف ہوا کرتے ہیں یوں ان کا پیمانہ بھی
در اصل یہ معیار زندگی ہے جو حصارِِ اَسلوب و اَفکار اور حدودِ نَشیب و فَراز بنایا کرتا ہے
اب جو آپ کے لیۓ فقط اک مقامِ نقطہ و زر ہو وہ عین ممکن ہو کے میری موت کا بازار ہو
بس بلکل اسی طرح جو آپ کے لیۓ مقام عبرت ہو وہ ہی دراصل میرا مقام اولا ٰی و افتخار و منزلت ہو
سمجھ سکو تو در سے بدر دراصل دربدر کا وہ سفر ہے جو مقام سے منزل اور مزل سے منذلت کا سفر کے جو اگر دنیا دیکھے تو دربدر اور اگر سمجھ سکے تو مقام اَبر و فَخر کے آلامِ سفر صیغًهِ مَرتبِہ بَشر یوں کربٌ و بَلا اک سجدَہِ شٌکر (ڈاکٹر رضا )
خٌداﷻ بًشر کی صورت : ہر وہ شے جو الہامی افکار سے انسانی اظہار میں ظاہر و ظہور پذیر ہو وہ کسی بھی صورت شر سےمبرّا اور اپنی اصل اثرو حیّت سے مختلف و مستشنیٰ قرار نہیں دی جاسکتی اب چاہے وہ انسانی کاتب کا وحی کی صورت کٌتب ترتیب دینا ہو یا راوی کی صورت روایت قلم بند کرنا ہو
یہ اس لیۓ کے جہاں اَمر کیفیتِ سماوات و عَرش و اَرض کے واضح اختلاف کے منفرد حصار میں آسمانی اور روحانی لامکانی، لافانی اور لازوال صفات میں پیوستہ ہوں وہاں طولٌ و عَرض لامحددود سے محدود میں کسی بھی صورت قیام و استحکام کا متحمّل نہیں ہوسکتا بس اب اگر کوہ طور بھی ہو تو تجللی جلا کر رکھ کردے میری نظر میں بعداز خداﷻ محممد ﷺ اور پھر آل محممد ﷺ ہی وہ نوری مخلوق ہے جو نور کی مثال سورۃ نور کی مصداق ہیں گویا چمکتا ہوا ستارا کے کہدو ہم نے خداﷻکا رنگ لےلیا اور خداﷻ سے بہتر کس کا رنگ (ڈاکٹر رضا )
دنیا میں نام کے کوئی معنی نہیں بس فقط وہ جس سے منسوب اب سوچو جہا ں نام سے اتنا پیار ہو وجود سےکتنا تعلق ہوگانام پہچان کے لیۓ ہوا کرتا ہے اور جب ایک بار پہچان ہوجاتی ہے تو پھر فقط وہ منسوب ہوجاتا ہے کے جیسے قرآن نے کہا کے ” اور اس سے پہلے ہم نے کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا” نام اور وجود کے درمیاں فقط روح ہوا کرتی ہے یہ سچ ہے کے نام اور وجود کسی کا ہوسکتا ہے مگر روح فقط پیار کرنے والے کو ملا کرتی ہے(ڈاکٹر رضا )
اکثر دوستی کےلبادوں میں دشمنی کا وجود ہوا کرتا ہے یوں دشمن کے ارادوں میں دشمنی کا خمیر واضح ہوا کرتا ہے بس اگر ارادوں کی سمت اور سمت میں چلنے والی ہواؤں کی رفتار کا پتا کرنا ہو تو دوستوں میں چپھے دشمن سے مشورہ کرکے دیکھو
فتنہ : جوشخص یہ شہ ضرورتِ اطاعت میں انفرادی کیفیت۔ اجتہاد پیدا کردے یوں منزل صرات میں اجتہادی و انفرادی اسباب و نظریہ پیدا کردے یوں آیک اجماع کو اختلاف میں بدل دے اسے اصطلاح میں فتنہ کہا جاتا ہے اب وہ اختلاف چاھےسخیفہ سے جڑا ہو یا پھر فدک کے اجتہاد سے (ڈاکٹر رضا )
حور نما : اور پھر اس نےاپنی تخلیقی کاریگری کو ہاتھو ں کی مجررب اور طلسماتی صلاحیتوں میں پرویا اور یوں اپنی سوچ کو ایک مجسمے کی مانند جان ڈال دی گویا ایسی روح جس میں چہرہ تجللی کی مانند اور جسم کلی کی مانند عجب معیارِِ حُسن کے پھر حُسن اپنی زینت پر اور زینت اپنی منفرد صفت پر کے بنانے والا بھی نازاں اور خلقت جیسے اس کا ظاہری لبادہ وہ ایسے کے جسکا ظاہر ماہر کا پتا دے اور باطن اسکےخالق کا تعبیری افتخار
اب تم کیا روکو گی مجھے محبّت کرنے سے میں نے توتمہاری محبّت میں عشق کی منزلے طے کرلی ہیں تم تو بنانے والے کا ایک کردار ہو میں تو بنانے والے سے محبّت کر بیٹھا ہوسکتا ہے اس دنیا میں تم میرا اختیار نہ ہو مگر بلاشبہ میرا پیار ہو اور یہی پیار روزِ محشر میرا اختیار ہوگا (ڈاکٹر رضا )
کاہلی: فیصلوں کا شیطان سوچ ہوا کرتی ہے اور وقت اسکا آیک مظبوط چیلا اسباب کی خرید و فروخت میں پسند ہمیشہ جزبات کی قید میں ہوا کرتی ہیں اور جذبات وقتی کیفیت کے انگریزی کہاوت ہے! “strike when the iron is hot” یہی وقتی کیفیت دراصل وہ آرضی جذبات ہیں جسمیں دکاندار خریدار پر اپنا جادو کر جاتا ہے (ڈاکٹر رضا )
ادب کے تقاضوں میں خاموش تقاضہ ہوا کرتی ہے تربیت کا
ایمان کی علامت یقین ہے اور یقین اعتماد اور اعتقاد سے جڑا ہے
بے ادب منہ زوری کیفیتِ بغض ہے جو فشارِ خون میں نفرت کے پنپنے کا عندیہ دیتی ہے
دل کی اپنی زبان ہواکرتی ہے جو نہ الفاظ اور نہ کسی اسلوب کی بابند ہوتی ہے دل تو فقط دھڑکنے سے اپنی کیفیت بتایا کرتا ہے کہ وہ محبّت میں دھڑک رہا ہے یا نفرت لیۓ
محبّت الفاظ میں پوشیدہ اور اسباب میں پیوستہ ہوا کرتی ہے
محبّت میں وجودکی اہمیت فقط سکون قلب، نور عین اور راحتِ جسد سے جڑی ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ سجود کے تقاضوں میں وجود کاہونا نہ ہونا برابر ہے
زندگی میں جدائی محبّت سے برتر مودّت کی ایسی منزل ہے جو تڑپ زندہ رکھتی ہے
یہ ضرورری نہی ھوتا کے زلیخا عزیز کے عقد میں متن ،رتن اور رسن سے جڑی ہو محبّت کے تقاضوں میں دل کہیں اور بدن کہیں ہوا کرتا ہے
محرم اور نہ محرم کا تقاضہ تو نفسانی حوس سے جرّا ہے معیار عشق میں چاہت فلسفۀ رجز سے پاک ہوا کرتا ہے اور پسند نہ پسند محرم۔ اور نہ محرم کے تقاضوں سے مبرّ ہواکرتی ہے
“اور ابراھیم نے کہا کے ابّا جان آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہییں اور نہ کوئ کام بنا سکتی ہیں”
نہ جانے عبادت کے ُاس قرانی پیمانے کو خدا کے وجود کی دلیل کے کس سانچے میی ژھالوں کے پھر اٌس خدا کو ان صفات سے مزیّن دکھایا جا سکے جن صفات کی غیرموجودگی خود قرآن عیپ دکھا رہا ہے کے وہ نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے اور نہ ہے کوئی کام بناسکتا ہے
کہاں ہے وہ جسکی ابتدا ء رحمان سے شروع ہوکر انتہا ء سے بےاعتناء اور بےنیاز رحیم پر قیام کرتی ہے
نظر میں نہ آنے والا مگر نظر میں رکھنے والا ، وجود سے محروم مگر زات میں پنہا ، سننے والا ، دیکھنے والا وجود مگر غائب ، پیکرِ وجود مگر بےنام ، زبان جو کے کن کے اثر میں مگر خاموش ، فیکون ایسا جو شاید خود بھی تقدیر کے ہاتھو،ں مجبور کیوں کے، تیرے یہاں بات نہیں بدلا کرتی تو پھر اختیار تقدیر کا خاموشی تیری رضامندی ؟
اب پھر دعا کا تقاضا کیسا؟ جہاں اختیار اپنے ادا کردہ الفاض کا قیدی ہو کے ہمارے یہاں بات نہیں بدلا کرتی وہاں بات تو پھر فقط تقدیر ہوگی ؟
وہ جو وقت کے سانچے سے باھر ملے مجھ کو وقت کے بےرحم پہر میں بےیارو مددگار فقط تقدیر کے نام چھوڑ کر دور جا کھڑا ہوا
سچ پوچھو تو جتنے شدّت سے تجھے انتظار ہے میرا اس سے زیادہ مجھ کو انتظار ہے تیرا
تجھے میرے جواب کا انتظار ہے مجھے مرے سوالوں کا جواب
جس شعور پر تونے مجھے رکھا اس شعور پر فقط نور ہے اٹھنے والے سوالوں پر تجللی ہی غرور ڈال کے استحصال کر سکتا ہے
“اور ابراھیم نے کہا کے ابّا جان آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہییں اور نہ کوئ کام بنا سکتی ہیں”
اب یا میری پکار پر جواب دے یاپھر اپنی آیت سے باھر اپنی تصویر دکھا یہ اس لیۓ وجود ضروری نہیں ہوا کرتا اگر گویائی ممکن ہے
یہ بھی اس لیۓ کے جو جواب دےدیتا ہے گویا وہ سنتا بھی ہے دیکھتا بھی ہے اور کم سے کم ساتھ کھڑا ہوتا ہے
اس قوم کی بیغیرتی کا پیمانہ نہ جانے کس عروج کی منزل پر ہے کے جسکے بعد شاید پھر کوئی منزل نہیں
بےشرم قوم اپنی بےغیرتی پر نالًہ ہونے کے بجاۓ تنزو مزاح اور میمس بنانے میں مصروف ہے
تعجب ہے ان کی اس بےضمیر لاشوں پر جو اپنے حقوق سے بھی ناآشنا ہیں اور اپنے آنے والی نسل کی ضروریات سے بھی بےخبر
لعنت ہے اس وجود پر جو لاشوں کی مانند گوشت پوست کے تو ہیں مگر ان میں روح نام کی کوئی شے نہیں گویا ایسی لاشیں جن میں شعور فقط نفسانی اور خواھش فقط جسمانی ہو
عجیب فطرت ہے اس بےضمیر قوم کی جو حواس میں ہوش کھو بیٹھیں ہیں یوں اپنی پامال ہوتی عزتیں خود ہی لٹیرو کے ہاتھوں لٹوارہےہیں
نجانے یہ لوگ کون سے دینِ فطرت پر ہیں جن کے جذبات احساسات سے عاری اور خیالات فقط نسوانی بیداری تک محدود ہیں
حق پر آواز اٹھانا تو دور یہ تو اپنے لٹتے حق کو بھی سامنے بیٹھےلٹیرو سے آزاد کرانے کے حق میں نہیں
یہ عجیب لاشے ہیں جن کی زبان تو ساتھ دیتی ہے مگر فقط اس منزل تک جب تک ان کی زندگی محفوظ ہو یوں ان کے دل ان کی اپنی موروسی بزدلی کی قید میں جو کبھی بھی یزیدیت کے سامنے حسینیت کا ساتھ نہ دیں گے
اس میں کوئی شک نہیں کے ان کے جذبات فقط عارضی اور احساسات فقط جزوی ہیں یوں شعور فقط دنیاوی گویا آخرت پر یقین متزلزل اور قرانی اصطلاح پر منجمد کے یہ گونگے بہرے اور اندھے ہیں نہ کچھ دیکھ سکتے ہیں نہ کچھ سمجھ سکتے ہیں
میری نظر میں آج بھی یہ لوگ اُس دن کے مانند بےخبر ہیں جب نواسۀِ رسولﷺ اصحاب اور احباب کا منتظر عَلمِ مصطفیٰ ﷺ لیۓ یزیدی یزیدیت پر خروج کا متظر تھا مگر اندھے، بہرے اور گونگے آنکھ چُرا کر یوں جان بچا کر جہاد فی سبیل اللّه سے بےخبر فقط طوافِ کعبہ میں مصروف رہے
یہ کیسے ممکن ہے کے خاندانِ رسولﷺ مدینے سے مکّہ تشریف لاۓ سفر کربلا کی جانب ہو اور مسافرانے مصیبت فقط خاندانِ رسولﷺ
بس اب مارنے والے خود بتائیں گے کے کون مرا اور مرنے والے دکھائیں گے کہ کس نے مارا
مارنے والے بتائیں گے ک ہم کس کی اولاد اور مرنے والے بتائیں گے کے ہمارا کیا شجرا
یاد رکھو اکثر خاموشی جیت بن جایا کرتی ہے
یہ اس لیۓ کے گمنام اور سنسان جگہوں پر جہاں ظالم کی تلوار کوئی نہیں دیکھتا وہاں مظلوم کی آواز دور تک گونجا کرتی ہے
وہ جو اکیلے رہ جاتے ہیں وہیں دوسرا خدا ہوا کرتا ہے
اور پھر خدا نے تم کو تخلیق کیا سچ پوچھیۓ تو خوبصورتی کی تخلیق فطرت پر نہیں قدرت پر ہوا کرتی ہے یوں حَمد خالق کا جٌزو بن جایا کرتی ہے ایسے کے سبحان اللہ کا وِرد حٌسنِ خلقت اور حُسن زن ، بنانے والے کی تعریف (ڈاکٹر رضا )
شر پسند شرارتی ضرار مسجدوں اور بیلگام عوامی سقیفوں سے بلااخر یہی نتیجہ اَخذ ہونا تھا جو آج سے 1400 برس پہلے دنیا اور دین کا مقدّر بنا
بس ریت تمہاری روایت پر آج اس قوم کاایک بار پھر مقدّر بنی
تم اٌس دن اٌس پہلی روایت اور سقیفے کے بانیوں کو گریباں سے پکڑ لیتےاور علی ع کی ولایت پر بلافصل نتیجہ مان لیتے تو آج ان مجرموں کی طرظِ باقیات تم کو تمہاری قیادت سے محروم نہ کرتی (ڈاکٹر رضا حیدر )
The menace of responsibility as right to vote by Dr Raza Haider :
This is so ridiculous to have a national responsibilty to cast a vote to a known or an unknown candidate but is never an essentiality to be a contestant thyself.
Why should we be the part of corrupted system of selection where exercising election has an structurally malacious orchestrated constituencies and malafide hereditary candidature system with a preconceived, pre-designed, pre-calculated reserved dedicated and well obedient votes and voters to the extent that contest and contestant has visible map of distancing and pledge of understanding that subject allocated seat is a faithful family seat of honor where result will and shall never effect cast,vote,voters and selection.
Amazingly, the system has tuned,turned and tampered every factor that plays a singular part and parcel in an electoral selection from the grass root to the ripen fruit which shall never let a proper candidate to replace as desirable candidate
Constituencies have been designed in a way where ultimate selection is destined as such allocated seats have their own pace of vote and voters.
Undoubtedly consitutuencies have their influential reserved kingdoms with their feudal knights and their own peasants hence their is no way one can redress and revoke the idea to replace the repeated arrivals as rivals or new arrivals.
Strangely disparity of casted votes can be seen in whole contest of system where no of voters have eminent disparity in numerically casted votes and voters hence, a village from balochistan or kohisran could be seen with a winning candidate for just few hundreds votes in comparison to someone from karachi or lahore who shall win after an intense fight of thousands voters.
Orchestrated system of electoral selection is corrupted to the level that it has visible segregation in terms of ethnic selection on every damn ground hence a candidate from karachi could never compete in selection as chief minister and under all means allocation of seat shall be to the level where any raising or rising party from karachi could never be the primary party of the province to have his man as state minister since the no of seats shall remain fixed may the population shall go millions.
There needs to be a revolution from scratch to snatch where right to vote should be the right of educated only otherwise this corrupt system shall be the property of corrupts only and we will have to chose a better corrupt from the pool of corrupts only.
As Imam Ali a.s said to Malik e Ashter
Imam Ali (a.s) farmaty hain,
Ay malik-e-ashtar!!! Aisy logo ko wizarat ky liye intekhaab matt karna, jinhony sabiqaa hukumaton me khayanat ki hoo…
میرے نزدیک تم کل کائنات ہو جو تجللی کی مانند ہر آنکھ کو بے نور اور ہر دل کو مجبور کردے ایسے کے پھر فقط زبان ‘سبحان اللّه’ کے ورد پر قیام کو منزل کرلے
سچ پوچھو تو جس عشق کی ابتداء ہی بصیرت کے بےلگام سجدے سے ہو وہاں تصّورِ عبادت کسی بھی صورت طور، طریقے دستور، رواج اور مسنشور سے بےپرواہ فقط چہرے معشوک کے دیدار کا محتاج ہوا کرتا ہے
یہ بلکل ایسے کےجیسے منکولِ رسولﷺ کے ” علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے” (ڈاکٹر رضا )
دولت اور غرور میں ڈوبےوجود یوں اختیار میں چپھی زبان کے ترازو پر جیت کو تولنا اور جیت جانا بھلا یہ بھی کوئی ظرف ہے
کبھی دل کے میزان پر نفرت اور محبّت کو تولو اور دیکھو کے کس کا معیار بلند ہے
آنسؤں کو کبھی کمزوری نہ سمجھو
یہ تو چاہت کے موتی ہیں جو فقط محبّت میں ڈوبے دل کی کمزوری کا پتا وجود میں موجود محبوب اور اس کی محبت کو دکھا دیا کرتے ہیں یوں بنا بولے ہی بتا دیا کرتے ہے (¹ڈاکٹر رضا )
یہ تو بنانے والے کی توقیر اور اور اس کی تاثیر ہے جو بننے والے کی تقدیر ہوا کرتی ہے بس یہی تقدیر اس کی تصویر اور یہی تصویر اس کی تسخیر جس پرناز اس کا ظرف اور ظرف اس کی تخلیق اور بنانے والے کی تدبیر (ڈاکٹر رضا )
طویل حصار اور طولانی اختیار یوں جرم سے وقتی پردہ پوشی، اور سزا سے ظاہری چشم پوشی بلا شبہ صحتِ جرم میں اضافے کا باعث بنا
آزادی کی حد نے قانون کی پاسداری کو رد کر دیا
اور پھر الہامی کتاب آسمانی حکم نامہ کو نافذالعمل کرا نے میں ناکام نظر آئ
اختیار کی حد کو اپنا حصار دینا اور اپنے حدود میں اپنے ہی نافذ کردہ حکم اور اختیار سے وقتی بےاعتنائ برتنا اپنے ہی بناۓ گۓ سَندِ قانون کو متزلزل کرنے کے لیۓ کافی ہوا کرتا ہے
لوگوں سے لوگوں کا انصاف اور عدل سے مبرّا فیصلہ ایک طرف جرم کو تقویت دیتا ہے دوسری طرف یقین کو گمان دیتا ہے
اب اگر ہر بات کا فیصلہ خدا نے اور قیامت و آخرت میں ہونا ہے تو آدم سے آخرﷺ اور جوازِ نزولِ کتب اور سلسلاۓ کتاپت و شریعت و سنّت کس قانونِ فنون پر مروی اور مرجَعِ رجوع اور اشاعت ہے